Transform Your Struggle with Aging Parents and Alzheimer’s!

“How Compassion Can Instantly Transform Your Struggle with Aging Parents and Alzheimer’s!”

The primary issue for some family members with aging parents is their failing memory. This is a very painful complaint. This illness, which modern medicine terms as Alzheimer’s, might be the same ‘Arzal al-Umar’ from which the Prophet sought protection.

The intellectual decline of the elderly not only impacts them but also causes bitterness in the lives of their heirs.

Seemingly healthy but mentally debilitated

It is very important for children and all members of the household not to take for granted an apparently healthy elderly parent because physically they may be healthy but mentally they become frail and the passing away.

Every month and year this weakness increases.But it is largely a treatable disease. In our country, doctors usually prescribe sedatives for the elderly which prove to be poison for mental strength and memory instead of antidote.

The need for positive thinking

Elderly individuals should develop mindfulness and focus on positivity in this regard. Whenever they confront issues related to this disease they should not show anger and harshness.

Perhaps these are the life phases and behaviors the Qur’an recommends that children handle without expressing anger toward their parents. Altered behaviors of the elderly with intellectual disability may vary. Among them, shouting, swearing, cursing, hitting are not worth mentioning.

Various circumstances may lead to these behaviors appearing. A disadvantage of this approach to the elderly is that feeding them unhealthy foods and medication also becomes a problem, that affects the emotional and intellectual fitness of individuals who supervise and serve them.

Embrace compassion instead of disgust

The correct remedy for this is that all the members of the family coldly accept that this behavior of the elders is not optional but rather a compulsion over which they have no control. It results in deterioration of mental abilities.

Keeping this in mind solves many problems. Considering it a disability and adopting a calm demeanor can foster major improvements. It is better that the members of the household themselves do not express negative behavior under any mental stress, but take a cool-hearted assessment of the situation and adopt an attitude of sympathy rather than disgust in the case of such elders.

They should always be ready to help them, due to the fact it is their right.Keep their behavior from affecting you and don’t consider it an issue of your dignity. Adopting this new mindset will have a highly favorable influence.

Bring up favorite topics

Also remember that you should never get confused during the conversation with your parents or any elders. No matter how much they seem to be misrepresenting, you should not be overly emotional in refuting them.

Always remember that aging can enhance mental clarity, enabling the remembrance of previously forgotten details. Change the topic of discussion with them. A good remedy for patients with forgetfulness is to tease them with their favorite subject.

Those incidents of his childhood should be listened to insistently, by the narration of which he opens up. Happy memories will trigger a sudden change in their behavior.

عمر میں اضافے کے ساتھ بوڑھے والدین خاندان کے کچھ افراد کے لئے مسئلہ بن سکتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب ان کی کمزور ہوتی ہوئی یادداشت ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ شکایت ہے۔ اس عارضے کو جدید طبی اصطلاح میں الزائمز ( بھول ) کا مرض کہتے ہیں۔

غالباً یہی “ارزل العمر” ہے جس سے حضور اکرم نے پناہ مانگی ہے۔ ہوش وخرد کے صلاحیتوں سے محروم بزرگوں کے علاوہ ان کے اپنے ورثا اور نگرانوں کی زندگیاں بھی تلخی و بدمزگی کا سبب بن جاتی ہیں۔

بظاہر صحت مند لیکن ذہنی طور پر کمزور

اولاد اور گھر کے تمام افراد کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بظاہر صحت مند نظر آنے والے بوڑھے والدین کو معمول کے مطابق نہ سمجھیں کیونکہ جسمانی طور پر وہ صحت مند ہو سکتے ہیں لیکن ذہنی طور پر وہ کمزور ہوتے جاتے ہیں اور گزرنے والا ہر ماہ و سال اس کمزوری میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔

لیکن یہ بڑی حد تک ایک قابل علاج مرض ہے۔ ہمارے ہاں عموماً معالج ایسے بزرگ افراد کے لئے سکون بخش ادویات تجویز کر دیتے ہیں جو تریاق کی بجائے ذہنی قوت اور یادداشت کے لئے زہر ثابت ہوتی ہیں۔

مثبت انداز فکر کی ضرورت

اس سلسلے میں ان بزرگ افراد کے تیماداروں کا ہوش مند اور مثبت انداز فکر کا حامل بن جانا بہت ضروری ہے۔ انہیں جب بھی اس مرض سے تعلق رکھنے والے مسائل کا سامنا ہوتو غصے اور سختی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

غالباً یہی وہ عمر اور رویے ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن حکم دیتا ہے کہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین پر غصہ نہ کریں ۔ بزرگوں کی ذہنی معذوری کے تبدیل شدہ رویے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں چیخنا چلانا، گالیاں دینا، کوسنا، مارنے کو دوڑ نا قابل ذکر ہیں۔ یہ رویے مختلف وجوہ کی بنا پر ظاہر ہو سکتے ہیں ۔

بزرگ افراد کے اس انداز سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں پر ہیزی غذا ئیں اور دوا کا کھلانا بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے جس سے ان کی نگرانی اور خدمت کرنے والوں کی جذباتی اور ذہنی صحت بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔

بیزاری کی بجائے ہمدردی اختیار کریں

اس کا درست علاج یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد ٹھنڈے دل سے یہ بات تسلیم کر لیں کہ بزرگوں کا یہ انداز اختیاری نہیں ہوتا بلکہ ان کی مجبوری ہوتی ہے جس پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔ یہ ذہنی صلاحیتوں کے اضمحلال کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینے سے بے شمار مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اسے ان کی معذوری سمجھ کر ٹھنڈے اور سلجھے انداز کے اختیار کر لینے سے بڑا فرق اور تبدیلی آجاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ گھر کے افراد خود کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر منفی رویے کا اظہار نہ کریں، بلکہ ٹھنڈے دل سے صورت حال کا جائزہ لیں اور ایسے بزرگوں کے معاملے میں بیزاری کی بجائے ہمدردی کا رویہ اختیار کریں۔

ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہیں، کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ ان کے اس رویے کو اپنا ذاتی مسئلہ نہ بنا ئیں اور نہ اسے اپنی ہتک عزت کا مسئلہ سمجھیں ۔ سوچ کی اس تبدیلی سے بہت مثبت فرق پیدا ہو جائے گا۔

پسندیدہ موضوع چھیڑ دیں

یہ بات بھی یاد رکھیے کہ آپ کو کسی بھی معاملے میں اپنے والدین یا کسی بھی بزرگ کے ساتھ گفتگو کے دوران الجھنا نہیں چاہیے۔ وہ چاہے بظاہر کتنی غلط بیانی کر رہے ہوں، آپ اس کی تردید میں شدت اور جذباتیت کے شکارنہ ہوں ۔

ہمیشہ یاد رکھیے کہ بڑھاپے میں ذہن کی تختی بالکل صاف ہو جاتی ہے اور بھولی بسری بات کبھی دوبارہ بھی یاد آ سکتی ہے۔ ان سے گفتگو کا رخ بدلیے ۔ بھول اور نسیان کے مریضوں کا ایک اچھا علاج یہ بھی ہے کہ ان کا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا جائے۔

ان کے بچپن کے وہ واقعات اصرار کر کے سنے جائیں جن کے بیان سے وہ کھل اٹھتے ہوں ۔ خوشگوار یادیں ان کے رویے میں اچانک تبدیلی کا ذریعہ بن جائیں گے۔

Share on facebook
Facebook
Share on twitter
Twitter
Share on linkedin
LinkedIn
Share on pinterest
Pinterest
Scroll to Top