Table of Contents
Toggleہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ خوش و خرم زندگی گزارے لیکن اس کےباوجود دیکھا گیا ہے کہ لوگ مایوس اور تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگ جنہیں کوئی معاشی مسئلہ یا پریشانی بھی نہیں ہوتی ان میں بھی زندگی کی چمک دمک نظر نہیں آتی ۔
اگر آپ خود پر تھوڑی سی توجہ دیں تو کام کاج کے باوجود تر و تازہ اور ہشاش بشاش رہا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ناشتہ بھر پور کیجیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جلدی بھوک نہیں لگے گی اور آپ کی توانائی دیر تک بحال رہے گی۔ توانائی حاصل کرنے کے لئے دہی بھی ایک عمدہ غذا ہے۔
آپ کسی بھی پیشے سے منسلک ہیں اس میں توانائی تو بہر حال خرچ ہو گی اگر ذہنی کام یا مصروفیات زیادہ ہیں تو تھکان یا اعصابی تناؤ کا ہونا لازمی ہے۔ ذیل میں صحت مند اور خوش و خرم رہنے کے کچھ مشورے پیش خدمت ہیں۔
ایک ہی انداز میں ہرگز نہ بیٹھیں
دفتر دکان یا گھر میں ممکن ہو تو حرکت کرتے رہیں اور ہر پندرہ بیسں منٹ کے بعد اُٹھ کر پوزیشن تبدیل کر لیں ۔ دوستوں اور ساتھیوں سے مختصر بات چیت بھی کرتے رہیں۔ ملازم سے پانی منگوانے کی بجائے خود پانی لا کر پئیں ۔ اس طرح خون کی گردش معمول پر رہے گی ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقل ایک ہی انداز میں ہرگز نہ بیٹھے رہیں ۔ گھنٹوں مسلسل ایک انداز میں بیٹھے رہنے سے آپ زیادہ تھک سکتے ہیں اور آپ کتنے ہی توانا کیوں نہ ہوں، تھکاوٹ بہر حال محسوس کریں گے اگر آپ دفتر دکان وغیرہ میں ایسے شعبے سے منسک ہیں کہ زیادہ چل پھر نہیں سکتے تو کھڑے ہو کر، ہاتھوں اور بازؤں کو ورزش کے انداز میں پھیلا سکتے ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ جسم پر چھایا ہوا جمود ٹوٹ جائے۔ دفاتر میں کام کرنے والوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک جگہ نظر جما کر کام کرنے سے آنکھوں میں تھکاوٹ اور جلن سی محسوس ہونے لگتی ہے اس طرح اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ بینائی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔
آنکھوں کی ورزش
آنکھوں کی قدرتی اور فطری چمک غائب ہو جاتی ہے اس کیلئے ایک پنسل یا پین لیں اور آنکھوں سے تقریباً آٹھ انچ کے فاصلے پر رکھ لیں اس کو دیکھیں پھر تقریبا پانچ سکینڈ کے بعد پنسل سے نظریں ہٹا کر کسی دور کی چیز کو دیکھیں ۔
یہ عمل کئی بار کریں۔ اس سے آنکھوں کی ہلکی سی ورزش ہوگی اور کچھ ہی دنوں میں آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن و چمک دار ہو جائیں گی اور تھکاوٹ بھی نہیں ہوگی ۔
بیٹھنے کا بہترین انداز
اکثر لوگ کرسی پر بیٹھے بیٹھے خاص کر خواتین فربہ یعنی موٹاپے کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ واک کا اہتمام ضرور کریں
اس کے علاوہ کرسی پر تن کے بالکل سیدھے بیٹھیں اور جب بھی محسوس ہونے لگے کہ جھک رہے ہیں تو پھر سے سیدھے بیٹھنے کی کوشش کریں اس دوران گہری سانسیں لیتے رہیں۔ گہری سانس لینے سے توانائی ذخیرہ ہوتی ہے اور آپ چاق و چوبند ہو جاتےہیں ۔
گھر دکان یا دفتر جہاں بھی ہوں پانی زیادہ پئیں، پیاس نہ بھی ہو تو دن بھر کم از کم دس بارہ گلاس پانی پینا ضروری ہے۔ پانی محض جسم کی ضرورت ہی نہیں ،
یہ حسن و دل کشی اور تازگی بھی فراہم کرتا ہے اور گہرے سانس لینے کی عادت سے آکسیجن جسم کے خلیوں میں با آسانی پہنچ جاتی ہے جو آپ کو ترو تازہ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
سانس کی ورزش، آسان بھی علاج بھی
سانس کی ورزش کرنے والے ماہرین کے خیال میں اس سے نہ صرف ہمیں بہتر آکسیجن ملتی ہے بلکہ صحت پر اس کے بھر پور اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہی نہیں اس سے نفسیاتی اعتبار سے بھی ہماری شخصیت میں بہتری آتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ بیماریوں کی لہریں یا جراثیم ہماری ناک اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم کے اندر منتقل ہوتے ہیں تو پھر ان کا علاج بھی آسان ہو جائے گا۔ اب آپ ان بیماریوں کو سانس کے ذریعے باہر بھی خارج کر سکتے ہیں۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل اور صبح بہت سویرے سورج نکلنے سے قبل کسی کھلی اور صاف فضا میں ایسی جگہ بیٹھ جائیں یا کھڑے ہو جائیں کہ جہاں تازہ آکسیجن زیادہ سے زیادہ ہو مثلاً کوئی صحن، مکان کی چھت، کھیت یا کوئی کھلا میدان بھی ہو سکتا ہے۔
اب آنکھیں بند کر لیں اور ناک کے ذریعے بہت ہی آہستہ آہستہ سانس اپنے اندر کھینچیں اور یہ تصور کریں کہ فضا سے صحت اور تندرستی کی لہریں ناک کے ذریعے آپ کے اندر جا رہی ہیں اور اندر جا کر پورے جسم میں جذب ہو گئی ہیں۔
پھر اسی طرح آہستہ آہستہ منہ کے ذریعے سانس باہر خارج کرتے ہوئے یہ تصور قائم کریں کہ بیماری اور کثافت کی لہریں منہ کے ذریعے سانس کے ساتھ ساتھ باہر خارج ہو رہی ہیں ۔
اگر کسی ایک مخصوص بیماری کا علاج کرنا مقصود ہو تو اس بیماری کی لہریں باہر خارج کرنے کا تصور کریں لیکن اگر زیادہ بیماریاں ہوں تو بیماریوں کی لہریں باہر خارج ہو رہی ہیں ۔
بعض افراد کا دعوی ہے کہ اس سے امراض بھاگ جاتے ہیں لیکن کچھ نفسیاتی ماہرین کے خیال میں سانس کی ورزشوں کے اپنے فوائد تو ہو سکتے ہیں لیکن اس کا زیادہ اثر نفسیاتی اعتبار سے انسان کی صحت پر پڑتا ہے۔
مشہور ہے کہ وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا لیکن عمل تنفس کی مذکورہ مشقوں سے نہ صرف وہم کا مکمل علاج ہو جاتا ہے
بلکہ بعض ماہرین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ سانس کی مشقوں سے بڑھا پا بھی کم ہو جاتا ہے۔ ایک سال تک یہ مشق کرنے سے بڑھاپے کو جلد طاری ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔